Sunday, July 8, 2012

ابناء الحفصہ سٹوڈیو :: ویڈیو بیان :: بعنوان :: نظامِ کفر قبول نہیں :: از مولانا عصمت اللہ معاویہ حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ابناء الحفصہ سٹوڈیو
پیش کرتے ہیں
مولانا عصمت اللہ معاویہ حفظہ اللہ کا ’’جمہوریت اور پاکستان کا موجودہ نظامِ حکومت ‘‘ کے بارے میں ویڈیو بیان
بعنوان:
’’نظامِ کفر قبول نہیں‘‘
Abna-ul-Hafsa Studio Presents 
A video Speech of Molana Ismat-Ullah Muaviyah (may Allah protect him) upon "Democracy and the False System of Pakistan"
================================================

================================================
Title: "System of Kufr (Democracy) isn't Acceptable"
مختصر اقتباسات:

میرا ایک ایک جملہ شریعت کا آئینہ دار ہے (انشاءاللہ)....اور مظلوموں کی صدا ہے....
غریب کی قمیض تک اتر چکی....گلے میں روٹیاں لٹکائے وہ دھائیاں دیتا پھر رہا ہے....حکمران سویزرلینڈ کے بینک بھر چکے
یہ سر.... یہ نواب.... یہ دراصل انگریزوں کے حقیقی وارث....گورے ٹیچروں کے کالے مانیٹر ہیں
اس ملک میں شریعت کے مطالبے کی سزا موت ہے
یہ ملک اسلام کے نام پر لیا گیا....اس کی مٹی کا مقدر اسلام ہے
یہ جس جمہوریت کے علمبردار ہیں....ربِّ محمدﷺ کی قسم! وہ جمہوریت کفر ہے....ظلم ہے.... رب کی بغاوت ہے
وی سی ڈی کوالٹی
VCD Quality
.mpg | 489 MB | 00:48:30
 ::داؤن لوڈ کریں::

موبائل معیار
Mobile Quality


لاتنسونا من صالح دعاءکم
اپنی اچھی دعاؤں میں ہمیں مت بھولیں
Don't forget us in your good prayers









Friday, June 22, 2012

افغان بچےنےامریکی کوہنسیاسےمارڈالا

افغان بچےنےامریکی کوہنسیاسےمارڈالا


ذبیح اللہ مجاہد



Thursday, 02 Sya'ban 1433
جمعرات, 21 جون 2012 20:38

افغان بچےنےاپنی اسلامی اورافغانی جذبےکی بنیادپرصوبہ ننگرہارضلع خوگیانی میں امریکی فوجی پرہنسیاکاوارکرکےاسےہمیشہ کےلیے جہنم رسید کیا۔

آمدہ رپورٹ کےمطابق جمعہ کےروز2012-06-21مقامی وقت کےمطابق شام چاربجے جارح فوجیں ضلعی مرکزکےقریب سرمئی گاؤں میں پیدل گشت کررہاتھاکہ ایک بااحساس بچے نشاط ولدسرمعلم محمدعظیم نےاسلامی وجہادی جذبےکی بنیادہنسیاSickleکا وار کرکےاسے موت کےگھاٹ اتاردیا اورغازی بچہ مجاہدین تک پہنچنےمیں کامیاب ہوا۔
اس بچےایسےوقت میں وحشی فوجوں کفرشکن حملہ کیا،جب امریکیوں کوامیدہےکہ افغانوں کوتابع بنائينگے اوران چندزرخرید ڈالروں کے غلاموں کی مانندافغان عوام امریکی جارحیت کوقبول کریگی،لیکن اس ہیروکی فداکاری اوراسلامی احساس نےواضح کردی،کہ افغان عمر کےجس سطح پرہو،بیرونی جارحیت کواچھی طرح جانتےہیں اورہرمناسب وقت میں اپنےاسلاف کی یادہ تازہ کرتی ہےاورغاصبوں پر برا وقت لاسکتاہے۔
واضح رہےکہ چندسال قبل بھی مذکورہ ضلع کےمملہ کےعلاقے میں ایک بچےنےاسی نوعیت حملےسےایک امریکی کومارڈالاتھا۔
عینی شاہدین کاکہناہےکہ واقعہ کےبعدلاش کوہیلےکاپٹرکےذریعےمنتقل کیےگئے۔
غاصب فوجوں کےخلاف افغان عوام میں نفرتوں کاسلسلہ عروج کوپہنچاہے،جن سےکم عمربچےبھی نفرت کرکےانہیں نشانہ بنارہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد
ترجمان امارت اسلامیہ افغانستان

سیدآباد،کانوائےپرحملہ،25سکیورٹی ہلاک

سیدآباد،کانوائےپرحملہ،25سکیورٹی ہلاک
ذبیح اللہ مجاہد

Thursday, 02 Sya'ban 1433

جمعرات, 21 جون 2012 20:10


tankerنیٹوسپلائی کانوائےپرامارت اسلامیہ کےمجاہدین نے صوبہ میدان وردک ضلع سیدآبادمیں حملہ کیا،جس میں دشمن کوبھاری جانی ومالی نقصانات کا سامناہوا۔


موصولہ رپورٹ کےمطابق جمعرات کےروز2012-06-21 مقامی وقت کےمطابق سہ پہرتین بجے مجاہدین نے اوتڑيو اورہفت آسیا کےعلاقوں میں ایک ہی جارح فوجوں کی سپلائی کانوائے پرہلکےوبھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا،جس کےنتیجے میں پانچ سپلائی گاڑیاں مکمل طوپرتباہ جبکہ اٹھارہ کو نقصان پہنچا۔

ذرائع کےمطابق گھات کی صورت میں کی جانےوالےحملےمیں 15سکیورٹی اہلکاراور10 ڈرائیورہلاک جبکہ 17سکیورٹی اہلکاراور ڈرائیور زخمی ہوئيں۔

نیزجمعرات کےروزمقامی وقت کےمطابق سہ پہرڈيڑھ بجےہفت آسیاکےعلاقے میں مجاہدین نے کٹھ پتلی فوجوں کی پیدل پارٹی پر حملہ کیا، جس میں 2 فوجی زخمی ہوئيں۔


آخری تازہ کاری ( Friday, 02 Sya'ban 1433 08:12 )

Tuesday, June 19, 2012

شربت وشکر :: شیخ قائد ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے قلم سے

بسم الله الرحمن الرحيم
شربت وشکر
شیخ قائد ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے قلم سے

ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم

معزز قاری حضرات کو اس بات پرتعجب وحیرانگی ہوسکتی ہے کہ میں اس عنوان کے تحت ایک ایسی نشریاتی اشاعت میں لکھ رہا ہوں جس میں جنگ وقتال، تعذیب وتشدد، بکھرے ہوئے انسانی اعضاء، سیاسی غداری اور حکومتی فساد وکرپشن کے معاملات کو زیربحث لایا جاتاہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ خیال بھی آئے کہ یہ موضوع کسی مزاحیہ جریدے یا ادبی رسالے یا بچوں کے میگزین میں شائع ہوتا تو زیادہ مناسب تھا!!
لیکن میں نے معزز قاری کی توجہ کچھ بنیادی حقائق کی طرف مبذول کرانےکے لئے اس کا انتخاب کیا ہے جس کو دھماکوں، قتال، تعذیب وتشدد اور بجلی کے جھٹکے کے دوران سمجھنا اسلامی جہادی تحریک کے لئے ضروری ہے۔
میں معزز قاری کے سامنے بات کو طول دینے کی بجائے فوراً اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہتاہوں کہ:

تین سال کاعرصہ جیل میں گزارنے کے بعد جب میں باہر آیا تو میرے گھر پر رشتہ دار اور پڑوسی بڑی تعداد میں مبارکباد دینے کے لئے آئے۔ ہمیشہ کی طرح یہ مبارکباد دینے والے شکر اور شربت۔۔۔۔ اور مختلف قسم کے کھانے اور تحفے لیکر آئے۔ لیکن ان زائرین میں سے تین ایسے مبارکباد دینے والے بھی تھے جنہیں میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔
ان تینوں میں سے پہلا شخص:
ایک معمولی سا آدمی تھا جو میرے پرائمری اسکول میں باغبان کی حیثیت سے کام کرتاتھا۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہر میں ہماری سڑک کے قریب گلی میں ایک درمیانے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ وہ وقفہ وقفہ سے ہمارے خاندان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔ پھر وہ ہم سے کچھ عرصے کے لیے منقطع ہوگیا اور اس کے بعد اس وقت نظر آیا جب میں جیل سے رہا ہوا تو وہ مجھے مبارکباد دینے کے لیے شکر اور شربت کی بوتلیں لیکر آیا تھا۔
ان تینوں میں سے دوسرا:
ایک غریب عورت تھی جو میرے پرائمری اسکول میں کام کرتی تھی۔ وہ بھی ہماری شاہراہ پر ہی رہتی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کئی سالوں میں ا ُسے کبھی دیکھا ہو بلکہ میں تو اس بات سے بھی ناواقف تھا کہ وہ ہماری سڑک پر ہی رہتی ہے۔ جب میں جیل سے باہر نکلا تو اُس کی وجہ سے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ میرے لیے شکر اور شربت لے کرآئی تھی۔ مجھے اُس سے پتہ چلا کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ اسے کٹوانے پڑے، جبکہ اسکے ایک قریبی عزیز کو بھی اسلام کی طرف میلان رکھنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا۔
ان تینوں میں تیسراشخص:
ایک تیمادار ملازم تھا جومیری گرفتاری سے پہلے میرے کلینک پر کام کرتا تھا۔ اس سیدھے سادھے اور بہادر شخص کی شخصیت ایسے مصری انسان کی تصویر کشی کرتی ہے جس کو زندگی کی مشکلات نے پیس کر رکھ دیاہو۔ وہ صبح کے وقت ایک حکومتی ہسپتال میں باورچی کے معاون کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہ گردے کی پتھری کے عارضہ میں مصرکے ایک نمایاں نشان ’’بلھارسیا‘‘ (کیڑوں یا فَلوکَس کا ایک جنس جو آدمی پرحملہ کرتا ہے) کی وجہ سے مبتلا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کرعوامی آبادی والے علاقے میں زیر زمین ایک کمرہ میں رہ رہا تھا جس میں وہ اور اس کا بڑا خاندان پھنس پھنس کے رہ رہے تھے۔ اس بہادر آدمی کو میری وجہ سے ایسی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کا ذکر کرنا بھی محال ہے۔ اس شخص کو بھی میری گرفتاری کے بعد حراست میں لے لیا گیا، پھر ایجنسیوں نے اُس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ میرے اور مجاہد بھائیوں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ مزید برآں اُس سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اُن مجاہدین کے نام بتائے جن کو وہ جانتا ہے۔ اس بیچارے نے یونہی اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اُس کی بیچاری بیوی کو جب اُس کی گرفتاری کاعلم ہوا تو وہ اُس کے متعلق پوچھ گچھ کرنے(
ایجنسیوں والوں کے پاس) گئی تو انہوں نے اسے بھی پکڑ کر شعبہ پولیس میں مجرموں اور بدکردار عورتوں کے ساتھ قید کردیا۔

اس معزز شخص کو میری وجہ سے پہنچنے والی ان تمام تکالیف اور مصیبتوں کے باوجود، میں نے اپنی رہائی کے وقت اسے مبارکباد دینے والوں میں پایا۔ وہ اپنے ساتھ شربت اور شکر لے کر آیا تھا گویا کہ اُس کو میرے کلینک پر کام کرنے کی وجہ سے کچھ ہواہی نہیں ہو۔

بلکہ وہ تو کئی مرتبہ میرے کلینک پر مسلسل میری زیارت کی خاطر آتا جاتا رہا اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کی پرواہ کیے بغیر میرے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتا رہا۔ جبکہ پولیس خفیہ اور اعلانیہ طور پرمیری نگرانی کررہی تھی اور نظر بندی کے قانون کے تحت رکھنے کی وجہ سےغروب آفتاب سے سورج نکلنے تک میں گھر پر رہنے کا پابند تھا اور ہر رات مجھ سے تحقیق و تفتیش کی جاتی تھی۔۔۔ اس طرح کی دیگر پابندیاں مجھ پرعائد تھی اور ان پابندیوں کو ہر مسلم مجاہد نوجوان اپنے دل سے یاد رکھتا ہے۔

مصر میں مسلمانوں پر ہونے والے حکومت کے ظلم وستم، تشدد اور تکلیفوں سے ہر کوئی باخوبی واقف ہے، مگر ان سیدھے سادے لوگوں نے اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں کی اور وہ مجھے مبارکباد دینے چلے آئے، حالانکہ وہ اس بات کواچھی طرح جانتے تھے کہ اُنہیں ان شربت اور شکر کے بدلے میں توہین اور ہراساں کرنے کی صورت میں اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

ان سادہ لوگوں کے مدمقابل کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو جیل سے رہائی پر مجھے مبارکباد دینے کو اس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ کوئی اُنہیں ملامت نہ کرے۔۔۔ مجھے اپنا ایک کلاس فیلو یاد آتا ہے، ہم دونوں ہم جماعت رہے یہاں تک کہ ہم نے کالج سے فراغت حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ایک دن بھی مشکل سے ایسا نہیں گزرتا تھا کہ میں نے اس کلاس فیلو کو نہ دیکھا ہو یا اُس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا ہو۔ لیکن جیسے ہی اس نے سنا کہ میں گرفتار ہوگیا ہوں تو اس نے میرے ساتھ قائم اپنا گہرا رشتہ توڑ ڈالا۔

آج میری گرفتاری کو چودہ سال ہوچکے ہیں، اس عرصہ کے دوران میں بھی مختلف ممالک میں منتقل ہوتا رہا اور وہ بھی منتقل ہوتا رہا، اُس نے پیشے میں ترقی کی حتی کہ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر کے درجہ پر فائز ہوگیا۔ ان تمام سالوں میں خواہ جو میری گرفتاری کاعرصہ ہو یا اُسکے بعد کا یا پھر مصر میں قیام کے دوران یا وہاں سے نکلنے تک کا عرصہ، اُس نے ایک لفظ بھی میری طرف نہیں بھیجا۔ یقینی بات ہے کہ میں نے بھی اُس سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرکے اس پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
مجھے ایک مشہور مبلغ بھی یاد آتا ہے۔ وہ ہمارے علاقہ میں ہی رہتا تھا اور ظاہری ہدایت کی نشانیوں کو دکھلانے میں لگا رہتا تھا۔ مثلا داڑھی، لاٹھی، پگڑی، اور قمیص۔۔۔۔ وغیرہ۔ یہ مشہور مبلغ مجھے بہت قریب سے جانتا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد راستے میں اس سے آمنا سامنا ہوا اور اُس نے مجھے دیکھا بھی لیکن وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس طرح چلا گیا کہ گویا کہ میں کوئی بھوت ہوں۔ اس مبلغ کا انجام یہ ہوا کہ وہ قومی اسمبلی میں شامل ہوگیا اور حسنی مبارک کی بطورمسلمانوں کے امام بیعت کرلی!!!
ان قابل عزت سادہ غریب افراد اور اُن سلامتی کے لالچیوں کے درمیان بہت واضح تقابل میرے ذہن میں گردش کررہا ہے۔

ان سادہ لوگوں کی تصویر مجھے ہر روز مسلسل اسلامی تحریک کی اس اچھی عوام کے ساتھ گھل ملنے میں کوتاہی کی یاد دلاتی ہے، جو لاکھوں کی تعداد میں اس طرح کے پاکیزہ نمونے رکھتے ہیں کہ مجاہدین کے لئے اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کرنے میں بڑے حریص ہیں اور جو اُن سے بدلہ اور شکریہ کے خواہشمند بھی نہیں۔

تو کیا ہم ان اچھے لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں کہ ہم انہیں سمجھائیں کہ مجاہدین ان ہی کے دین کے دفاع کے لئے قتال کررہے ہیں اور ان ہی کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے لڑرہے ہیں۔

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اُن کے شربت اور شکر جیسے تحائف کا بہترین بدلہ ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
ازقلم قائد شیخ ایمن الظواہری کے قلم سے
بشکریہ میگزین "المجاهدون" تعداد: 18/ پہلا سال

نائیجیریا میں قید جرمنی قیدی کے ہلاک ہونے کی بابت بیان

تنظیم القاعدۂ برائے مغرب اسلامی :: نائیجیریا میں قید جرمنی قیدی کے ہلاک ہونے کی بابت بیان

بسم الله الرحمن الرحيم

تنظيم القاعدۂ برائے مغرب اسلامی
نائیجیریا میں قید جرمنی قیدی کے ہلاک ہونے کی بابت بیان
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم

الحمد لله وليّ الصَّالحين، والعاقبة للمتّقين ولا عدوان إلا على الظَّالمين، والصَّلاة والسّلام على المبعوث رحمة للعالمين، وعلى آله وصحبه الطّاهرين، أمّا بعد:

ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کے سیاستدانوں نے افریقی ساحل پر سارکوزی کی بیوقوفانہ حرکتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اب وہ اسی طرح کی بیوقوفانہ حرکت نائیجیریا میں کررہے ہیں اور اپنے قیدی شہری کو طاقت کے زور پر چھڑانے کے لیے اسپیشل عسکری فورسز کے ذریعے سے نائیجیریا میں مداخلت کرنے کی حماقت کیں، جس کا نتیجہ ان کے قیدی جرمنی شہری
                              (Edgar Fritz Raupach)
"ادگر فریٹز روباخ " کی ہلاکت کی صورت میں نکلا۔

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا، جب مجاہدین مثبت مفاہمت کے ذریعے سے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے کوشاں تھے اور اپنے مطالبات پورے ہوتے ہی اس جرمنی قیدی کو واپس اس کے اہلخانہ کے پاس صحیح وسلامت بھجوادیتے۔ سو ہم اس بیان کے ذریعے سے مندرجہ ذیل اموربتانا چاہتے ہیں:
ہم جرمنی شہری "ادغر فريٹز روباخ" کے اہل خانہ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارے بیٹے کا خون تمہاری حکومت کی گردن پر لٹکا ہواہے۔ فوجی دھاوا بولنے کی کارروائی کی وجہ سے تمہارا بیٹا مارا گیا۔ تمہاری حکومت نے فوجی کارروائی کے لیے گرین سگنل دیا اور اس کی منظوری دی۔ پس تمہیں چاہئے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرو۔
ہم یورپی حکومتوں سے عمومی طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغویوں کے معاملے کو حل کرنے میں احمقانہ اسلوب نے اپنی ناکامی کو ثابت کیا ہے اور ہر مرتبہ تمام حالات میں مغویوں اور کئی فوجیوں کی ہلاکتوں کا باعث بنا ہے۔ جبکہ سنجیدہ مذاکرات اور ذمہ داری اٹھانے کے اسلوب نے اپنی کامیابی کو ثابت کیا ہے اور مغویوں کو رہائی نصیب کرنے کی وجہ بنا ہے۔ جرمنی ماہرعلم اینچٹن نے بیوقوفی کی تعریف یہ کی ہے: ’’ایک ہی کام کو ایک ہی اسلوب کے ساتھ انجام دیکر مختلف نتائج کا انتظار کرنا ہے‘‘ !! ’’پس کیا تم سبق حاصل کرتے ہو‘‘؟!۔
آخری پیغام جرمنی حکومت کے عقلمندوں کے نام ہے: بلاشبہ مسلمانوں اور مقدسات کیخلاف جرمنی یا اس سے باہر ہونے والی دراندازیوں سے ہم غافل نہیں ہیں۔ تمہارے اوپر لازم ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے تم اپنی اس غلطی کی اصلاح کرو۔ یاد رکھو! تمہارا امن اور تمہارے شہریوں کا امن مسلمانوں کے امن اور ان کے مقدسات کے احترام کرنے سے مشروط ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.
تنظیم القاعدۃ برائے مغرب اسلامی
ادارہ الاندلس برائے نشر واشاعت
ـــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــ
‏اتوار: 21 رجب 1433هـ بمطابق: ‏10/06/2012ء
ماخذ: (مركز الفجر برائے میڈیا)